ورثہ

اداس ہونے کے دن نہیںابھی تک کوئی تبصرہ نہیں ہوا »

بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں

ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے

سارے درد چُھپالیتی ہیں

روتے روتے ہنس پڑتی ہیں

ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رولیتی ہیں

خوشی کی خواہش کرتے کرتے

خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں

سوحصّوں میں بٹ جاتی ہیں

گھر کے دروازے پر بیٹھی

اُمیدوں کے ریشم بنتے ….ساری عُمر گنوا دیتی ہیں

میں جو گئے دنوں میں

ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی

اب خود بھی تو

عُمر کی گرتی دیواروں دے ٹیک لگا ئے

فصل خوشی کی بوتی ہوں

اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں

جانے کیسی رسم سے یہ بھی

ماں کیوں بیٹےی کو ورثے میں

اپنا مقدّر دے دیتی ہے

اس تحریر پر اپنی رائے دیجیے

درج ذیل خانوں میں آپ اردو لکھ سکتے ہیں ۔ انگریزی لکھنے کے لیے Control اور Space کے بٹن ایک ساتھ دبائیے