یہ نام ممکن نہیں رہے گا،مقام ممکن نہیں رہے گا
غرور لہجے میں آگیا تو کلام ممکن نہیں رہے گا
یہ برف موسم جو شہرِ جاں میں کچھُ اور لمحے ٹھہر گیا تو
لہو کا دل کی کسی گلی میں قیام ممکن نہیں رہے گا
تم اپنی سانسوں سے میری سانسیں الگ تو کرنے لگے ہو لیکن
جو کام آساں سمجھ رہے ہو وہ کام ممکن نہیں رہے گا
وفا کا کاغذ تو بھیگ جائے گا بدگُمانی کی بارشوں میں
خُطوں کی باتیں تو خواب ہوں گی پیام ممکن نہیں رہے گا
میں جانتی ہوں مجھُے یقیں ہے اگر کبھی توُ مجھے بُھلادے
تو تیری آنکھوں میں روشنی کا قیام ممکن نہیں رہے گا
یہ ہم محبّت میں لا تعلّق سے ہورہے ہیں تو دیکھ لینا
دُعائیں تو خیر کون دے گا سلام ممکن نہیں رہے گا