لاکھ ضبطِ خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اُس کو بھُول جانے کے
نے پنہِ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کرکے جینے کا
فیصلہ سُنانے کو
کتنے نفط سوچے ہوں
دل کو اس کی آہٹ پر
برَملا دھڑکنے سے کون روک سکتاہے
پھر وفاکے صحرامیں
اُس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خُوشبوؤں کو چھُونے کی
جستجو مین رہنے سے
رُوح تک پگلھلنے سے
ننگے ہاؤں چلنے سے
کون ورک سکتا ہے
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجرکے مُسافر کے
پاؤں تک بھی چھُوآؤ
جِس کو لَوٹ جانا ہو
اس کو دُور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دُور جانکلنے سے
کون روک سکتا ہے