کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی
تری بات بات کی روشنی
مِرے حرف حرف میں بھرسکے
ترے لمس کی یہ شگفتگی
مرے جسم وجاں میں اُترسکے
کوئی چاندنی کسِی گہرے رنگ کے راز کی
مرے راستوں میں بکھرسکے
تری گفتگو سے بناؤں میں
کوئی داستاں کوئی کہکشاں
ہوں محبتوں کی تمازتیں بھی کمال طرح سے مہرباں
ترے بازوؤں کی بہار میں
کبھی جُھولتے ہُوئے گاؤں میں
تری جستجو کے چراغ کو سرشام دِل میں جلاؤں
اِسی جھلملاتی سی شام میں
لِکھوں نظم جو ترارُوپ ہو
کہیں سخت جاڑوں میں ایک دم جو چمک اُٹھے
کوئی خوشگوار سی دُھوپ ہو
جو وفا کی تال کے رقص کا
کوئی جیتا جاگتا عکس ہو
کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی
کہ ہر ایک لفظ کے ہاتھ میں
ترے نام کی
ترے حروف تازہ کلام کے
کئی راز ہوں
جنھیں مُنکشف بھی کروں اگر
تو جہان شعر کے باب میں
مِرے دل میں رکھی کتاب میں
ترے چشم ولب بھی چمک اٹھیں
مجھے روشنی کی فضاؤں میں کہیں گھیرلیں
کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی