لفظ بھی کوئی اس کا ساتھ نہ دیتا تھا
جیسے کوئی وصل کی رات کا قصہ تھا
بستی کے اس پار کہیں پر رات ڈھلے
لمبی چیخ کے بعد کوئی سناٹا تھا
جس کو اپنا گھر سمجھے تھے وہ تومحض
دیواریں تھیں اور ان میں دروازہ تھا
ہم نے اسے بھی لفظوں میں زنجیر کیا
بادل جیسا جو آوارہ پھرتا تھا
منزل کو سر کرنے والے لوگوں نے
رستوں کا بھی ہراندیشہ دیکھا تھا
کیسے دن ہیں اس کا چہرہ دیکھ کے ہم
سوچ رہے ہیں پہلے کہاں پہ دیکھا تھا