ضمیرِ عالمِ انسانیت خبر ہے تجھے
شرار و شعلہ کی زد میں ہے وادی کشمیر
تجھے خبر ہے کہ جنّت نشاں یہ وادی
لہولہو ہُوئی جاتی ہے دستِ قاتل سے
جہاں یہ روشنی خُوشبو بکھرتی تھی کبھی
وہاں پہ خاک ہُوئی جارہی ہے آزادی
وہ پھُول اُگاتی زمیں اور گیت گاتی زمیں
وفا کے رنگ محبت سے مُسکراتی زمیں
کہ جس کے خواب بھی روشن ‘ نگاہ بھی روشن
کہ جِس کے راستے دل سے گُذر کے جاتے ہیں
وہ دلفریب ،دل آویز، دلُربا منظر
گُذرنے والوں کے دل اُترتے جاتے ہیں
ضمیرِ عالمِ انسانیت خبرہے تجھے
وہ منظروں میں جو منظر تھے بجھتے جاتے تھے
وہ پُھول سو کھتے اور گیت مرتے جاتے ہیں
ضمیرِ عالمِ انسانیت خبر ہے تجھے
شرارو شعلہ کی زد میں ہے وادی کشمیر
تجھے خبر ہے جنّت نشاں ہے وادی
لہو لہوہُوئی جاتی ہے دستِ قاتل سے
یہ دستِ قتل وفا جتنا بڑھتا جائے گا
ترے وقار کی گردن تلک بھی آجائے گا
ضمیرِعالم انسانیت سنبھال اسے
شرار وشعلہ کی زدمیں ہے وادی کشمیر