دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کرہُوا
یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہُوا
اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں
دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہُوا
طُولِ شبِ فراق تری خیر ہوکہ دل
آمادئہ وصال تجھے دیکھ کر ہُوا
یہ ہم ہی جانتے ہیں جُدائی کے موڑ پر
اِس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہُوا
آئی نہ تھی کبھی مِرے لفظوں میں روشی
اور مُجھ سے یہ کمال تجھے دیکھ کر ہُوا
بچھڑے تو جیسے ذہن معطّل سا ہوگیا
شہرِ سخن بحال تجھے دیکھ کر ہُوا
پھر لوگ آگئے مِرا ماضی کُر یدنے
پھر مُجھ سے اَک سوال تجھے دیکھ کر ہُوا