تہمتیں تو لگتی ہیں
روشنی کی خواہش میں
گھر سے باہر آنے کی کُچھ سزا تو ملتی ہے
لوگ لوگ ہوتے
ان کو کیا خبر جاناں !
آپ کے اِرادوں کی خوُبصورت آنکھوں میں
بسنے والے خوابوں کے رنگ کیسے ہوتے ہیں
دل کی گود آنگن میں پلنے والی باتو ںکے
زخم کیسے ہوتے ہیں
کتنے گہرے ہوتے ہیں
کب یہ سوچ سکتے ہیں
ایسی بے گناہ آنکھیں
گھر کے کونے کھدروں میںچُھپ کے کتنا روتی ہیں
پھر بھی یہ کہانی سے
اپنی کج بیانی سے
اس قد روانی سے داستان سنانے
اور یقین کی آنکھیں
سچ کے غمزدہ دل سے لگ کے رونے لگتی ہیں
تہمتیں تولگتی ہیں
روشنی کی خواہش میں
تہمتیںکے لگنے سے
دل سے دوست کو جاناں
اب نڑھال کیا
تہمتوںسے کیا ڈرنا