ہم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ہر خواہش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے
بہہ جائے
چاہے اب مکینوں پر
گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گِر جائیں
اور بے مقّدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خُودہی کیوں نہ دَب جائیں
تم سے کُچھ نہیں کہنا
کیسی نیند تھی اپنی ، کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خُوسے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
گِھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوںمیں
اِس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں، کب عذاب مُلتے ہیں
اب تو اِن عذابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناہ!
جس طرح تمھیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں
ہم نے سوچ رکھا تُم سے کُچھ نہیں کہنا