تُمھیں خبر ہی نہیں کیسے سر بچایا ہے
عذاب جاں پہ سہا ہے تو گھربچایا ہے
تمام عسُمر تعلّق سے مُخرف بھی رہے
تمام عسُمر اِسی کو مگر بچایا ہے
بدن کو برف بناتی ہُوئی فضا میں بھی
یہ مُعجزہ ہے کہ دستِ ہُنر بچایا ہے
سحرِ ہوئی تو مِرے گھر کو راکھ کرتا تھا
وہ اِک چراغ جسے رات بھر بچایا ہے
کچھُ ایسی صُورت حالات ہوگئی دل کو
جنوں کو ترک کیا اور ڈر بچایا ہے
یقینِ شہر ہُنر نے یقین موسم میں
بہت کٹھن تھا بچانا مگر بچایا ہے