بے نام الُجھن
یہ کیا ہے نام اُلجھن ہے
نجانے آگہی اور خواب کے مابین کیسا مسئلہ ہے
کے ہر تخلیق سے پہلے
عجب اِک خوف دل کو گھیر لیتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
میں اپنی آخری تحریر لکھنے جارہی ہوں
سخن کی شب کے ماتھے پر
وہ میرے نام کے جتنے ستارے تھے
وفا کے اِستعارے تھے
سب اپنی عُمر پُوری کرچکے ہیں
یہی دھڑ کا سارہتا ہے
کہ جتنے شعر لکھے تھے
جنھیں میں
اپنے ہونے کی گواہی کی طرح محسوس کرتی تھی
یہ اب لکّھے نہ جائیں گے
یہ اب سوچے نہ جائے گے
مری نظمیں
جواب تک آرزوؤں کا سُنہرا عکس بن کر جھلملاتی تھیں
محّبت کی زمینوں پر اُترتے
ہجر کے اور وصل کے سب موسموں کی بات کرتی تھیں
انھیں تحریر کرنے کاہُنر بھی بُھول جاؤں گی
گُماں یہ بے ثباتی کا
یقیںبن بن کے ہر لمحہ
بڑی شدت سے میرے ذہن کادامن ہلاتا ہے
یہی باور کراتا ہے
کہ حرف و لفظ کا جتنا اثاثہ تھا
فنا کی سرحدوں پر ہے
سخن سّچائی کا سارا تفاخر ٹوٹنے کو ہے
محّبت رُوٹھنے کو ہے
یہ کیا نے نام اُلجھن ہے
کہ ہر تخلیق سے پہلے
عجب اِک خوف دِل کو گھیر لیتا ہے
مُجھے محسوس ہوتا ہے
میں اپنی آخری تحریر لکھنے جارہی ہوں