اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے بعد ُہوا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اِک خواب بہت برباد ہُوا
یہ ہجر ہَوا بھی دُشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو‘ میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہُوا
اِس شہر میں کتنے چہرے تھے‘ کچھُ یاد نہیں سب بُھول گئے
اِک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہُوا
وہ اپنی گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا
اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہُوایا شاد ہُوا
بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں
ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بے دٰدہوُا