بہت تاخیر سے لیکن
کُھلا یہ بھید خُود پر بھی
کہ میں اب تک
مّحبت جان کر جس
جذبۂ دیرئینہ کو اپنے لہُو سے سینچتی آئی
وہ جس کی ساعتِ صد مہر باں ہی زندگی کی شرط ٹھہری تھی
فقط اک شائبہ ہی تھا مّحبت کا
ےُو نہی عادت تھی ہر رستے پہ اُس کے ساتھ چلنے کی
وگر نہ ترک خواہش پر
یہ دل تھوڑا سا تو دُکھنا
ذراسی آنکھ نَم ہوتی