گلابی روشنیوں کی بشارت
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہوا میری سہیلی تھی اور میرے رخساروں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر اسم آگہی یاد کراتی۔۔۔پھر زرد پھولوں کی بارش سے لے کر گلابی روشنیوں کی بشارت کا سارا سفر میں نے اسی کو پہلو داد رفاقت میں طے کیا۔
یہ اور بات ہے کہ اس سفر میں کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوا جیسے میرادل لمبی پرواز سے تھکی ہاری چڑیا کی مانند دھڑک رہا ہے،پیشانی پر مشقت کے پسینے کے نادیدہ قطرے انگارے بن گئے ہیں،پروں سے طاقت پروازروٹھ چکی ہے،آسمانوں پر اذن سفر کا نقارہ بھی گنگ ہے اور افق ہر ہجرتوں کی طرح سرک آندھی کا غبار ٹھہر گیا ہے۔۔۔اس پر تکان کیفیت کے باوجود بھی میں جستجوئے وصال ذات کی ایک شاخ بے نمو پر آن بیٹھی ،چند لمحوں کو سہی مگر ساری عمر گزار دینے کی خواہش سے لبریز۔
خواہش سے لبریز ایسے ہی موسم خوش خیال میں سرخروئی کا نشہ وارد ہوتا اور ایسا لگنے لگتا کہ جیسے آج عشق نے پتھر سے نمی مانگ لی،انا کے دریا کا بند ٹوٹ گیا اور محبت کی وادی کے تمام دکھ بہا کے لے گیا ،فلک بوس غرور زمین بو س ہوگیا۔پہاڑ سے آبشار پھوٹ پڑی،شبنم نے الاؤ کو مسخر کرلیا،ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ تیرہ وتارراتوں کو منور کرگیا۔خوشبو کا جھونکا محبوس جسموں اور دماغوں کو معطر کرگیا،پنچھی قفس میں پھڑپھڑاکر پرسکون ہوگیا،ایک کلی مسکرانے ،کی ابدی جزاپا گئی،ایک زخم شفیق پوروں کی جراحی سے شفایاب ہوگیا۔۔۔شاید یہ عالم جنوں تھا یا لمحہ ادراک جو بھی تھا میلے میں اکیلا کردیتا تھا۔
میلے میں اکیلا تو عشق بھی کردیتا ہے،اہل عشق۔۔۔ کہ جن کے سینوں کے اندر ھمہ وقت ایک صف ماتم بچھی ہوتی ہے،جہاں آرزوئیں آنکھوں میں آنسو لیے،بال بکھرائے،سینہ کوبی پہ مجبور بین کرتی نظرآتی ہیں اور پھر یہی آرزدگی جب حروف ومعنی اوڑھ لے تو شاعری کہلاتی ہے مکتب عشق کے صوفیوں کو خبر ہے کہ جو عشق میں دیانتدار نہیں وہ شاعری میں دیانتدار نہیں ۔
شاعری جو میرا یقین ہے کئی بار جی چاہتا ہے کہ یقین کی اس پوٹلی کو ہاتھ میں لے کر تنہائی کے جنگل میں جانکلوں جہاں وحشی خوشبوؤں کا راج ہو۔۔۔ہتھیلیوں کی تقدیر بدلتی خوشبو۔۔آنکھوں کی روشنی بکھیرتی خوشبو۔۔۔۔سینوں کی محصور کرتی خوشبو۔۔۔ہونٹوں کی شعر کہتی خوشبو۔۔۔یہی خوشبو تو ہے جومحسوسات کو پتھر کردینے والی رزق کی دوڑ میں مگن اس لڑکی کے پیروں میں حرف ومعنی کی جھانجھریں ڈال دیتی ہے جن کی چھن چھن اسے اس کے ہونے کا احساس دلاتی ہے اور روح مسکراکر پکاراٹھتی ہے۔۔۔’’اداس ہونے کے دن نہیں ہیں‘‘
یہ جو ہماری روح ہے نا!یہ چاندی کے کٹورے کی مانند ہوتی ہے جس میں ذات سے باہر کے تعصبات کی زرا سی بھی گرد ٹھہرجائے تو وجدان کا سپید میٹھا دودھ گدلا اور بے لذت ہوجاتا ہے۔
بے لذت تو زندگی بھی ہوجاتی ہے جب کہ کچھ طبقات اپنے اور خلق کے ذہن وبدن کے لئے ان دیکھی ذنجیروں کا انتظام کرنے میں منہمک رہتے ہیں اور پھر آزادی کی قدرتی تنظیم وتوانائی کے لطف کی فضا سے محروم ہوتے اور کرتے چلے جاتے ہیں۔
فضا تو وہ بھی کیسی دل میں اترجانے والی ہوتی ہے جب سردیوں کی کسی گہری اداس شب میں سنہرے الاؤ کے گرد کوئی دعا جیسی صحرائی آواز محبت کے درد میں ڈوبی پروقار سچائی کا اہتمام کررہی ہوتی ہے۔۔۔تب آسمان پر کونجیں گواہی دیتی ہیںکہ انسان کی فطری سرکشی اس کے بدن سے ہجرت کررہی ہے،انحراف اثبات میں بدل گئے ہیں،سرتسلیم خم ہوچکے ہیں،سجدے نیکیوں کی صورت جبین نیاز پر اتررہے ہیں۔
اور سیئں خواجہ فرید کی کافی حرف حرف ثواب بنتی چلی جاتی ہے۔
میڈا عشق وہ توں میڈا یاروی توں
میڈا دین وی توں ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈی روح وی توں
میڈا قلب وی توں جندجان وی توں
میڈا ذکروی توں میڈا فکروی توں
میڈا ذوق وی توں وجدان وی تو
میڈی وحشت جوش جنوں وی توں
میڈا گریہ آہ وفغان وی توں
جے یار فرید قبول کرے
سرکار وی توں سلطان وی توں
نوشی گیلانی
زمانے والوں سے چھُپ کے رونے کے دن نہیں ہیں
اُسے یہ کہنا اُداس ہونے کے دن نہیں ہیں
میں جان سکتی ہُوں وَصل میں اصل بھید کیا ہے
مگر حقیقت شناس ہونے کے دن نہیں ہیں
بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا
صبا حضور سے حالِ دل و نظر کہنا!
حصارِ جبر میں ہوں اور یہاں سے بھی ہجرت
مَیں جانتی ہُوں کہ ممکن نہیں مگر‘ کہنا
میں خاک شہرِمدینہ پہن کے جب نکلوں
تو مُجھ سے بڑھ کے کوئی ہوگا معتبر کہنا
یہ عرض کرنا کہ آقا مِری بھی سُن لیجے
بحبز تمُھارے نہین کوئی چارہ گر کہنا
مَیںاپنی پَلکوں سے لکھتی ہُوں حرفِ نامِ رسُول
مُجھے بھی آگیا لکھنے کا اُب ہُنرکہنا
یہ کہنا اب تو ہمیں تاِب انتظار نہیں
کہ ہم کریں گے مدینے کا کب سفر کہنا
اِک پشیمان سی حسرت مُجھے سوچتا ہے
اب وُہی شہر محبت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مُحدود سے لمحوں میں مِلی تھی اُس سے
پھر بھی وہ کِتنی وضاحت سے مُجھے سوچتا ہے
جِس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا ممکن ہونا
دُکھ میں ڈوُبی ہُوئی حیرت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مَرجاؤں اگر سوچتے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کِتنی سہُولت سے مُجھے سوچتا ہے
گرچہ اب ترکِ مراسم کو بہت دیر ہُوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے مُجھے سوچتا ہے
کِتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ نئی صُورت سے مُجھے سوچتا ہے
دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے
پھر بھی خُوشبو کے ہاتھ پِیلے ہُوئے
بدگُمانی کے سَرد موسم میں
میری گُڑیا کے ہاتھ نِیلے ہُوئے
جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی
تب کہیں بارشوں کے حیلے ہُوئے
وقت نے خاک وہ اُڑائی ہے
شہر آباد تھے جو ٹِیلے ہُوئے
جب پرندوں کی سانس رُکنے لگی
تب ہُواؤں کے کچھُ وسیلے ہُوئے
کوئی بارش تھی بدگُمانی کی
سارے کاغذ ہی دِل کے گَیلے ہُوئے
کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
برف کے پگلھنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
اُس نے ہنس کر دیکھا تو مُسکرادیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
ہجر کی تمازت سے وصَل کے الاؤ تک
لڑکیوں کے جلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہوگی
بات کے مُکرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
زعم کِتنا کرتے ہو اِک چراغ پر اپنے
اور ہَوا کے چلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
جب یقین کی بانہوں پر شک کے یاؤں پڑجائیں
چوڑیاں بِکھرنے میں دیر کِتنی لگنی ہے
ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبح وصَال میں رکھے
اچھّا مولا! تیری مرضی تو جس حال میں رکھے
کھیل یہ کیسا کھیل رہی ہے دل سے تیری محبّت
اِک پَل کی سرشاری دے اور دِنوں ملال میں رکھے
میں نے ساری خُوشبوئیں آنچل سے باندھ کے رکھیں
شاید ان کا ذِکر تُو اپنے کسی سوال میں رکھے
کِس سے تیرے آنے کی سرگوشی کو سُنتے ہی
میں نے کِتنے پھُول چُنے اور اپنی شال میں رکھے
مشکل بن کر ٹَوٹ پڑی ہے دِل پر یہ تنہائی
اب جانے یہ کب تک اس کو اپنے جال میں رکھے
لاکھ ضبطِ خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اُس کو بھُول جانے کے
نے پنہِ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کرکے جینے کا
فیصلہ سُنانے کو
کتنے نفط سوچے ہوں
دل کو اس کی آہٹ پر
برَملا دھڑکنے سے کون روک سکتاہے
پھر وفاکے صحرامیں
اُس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خُوشبوؤں کو چھُونے کی
جستجو مین رہنے سے
رُوح تک پگلھلنے سے
ننگے ہاؤں چلنے سے
کون ورک سکتا ہے
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں میں
ہجرکے مُسافر کے
پاؤں تک بھی چھُوآؤ
جِس کو لَوٹ جانا ہو
اس کو دُور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دُور جانکلنے سے
کون روک سکتا ہے
بند ہوتی کتابوں میں اُڑتی ہوئی تتلیاں ڈال دیں
کس کی رسموں کی جلتی ہُوئی آگ میں لڑکیاں ڈال دیں
خوف کیسا ہے یہ نام اس کا کہیں زےِرلب بھی نہیں
جس نے ہاتھوں میں میرے ہرے کانچ کو چُوڑیاں ڈال دیں
ہونٹ پیاسے رہے، حوصلے تھک گئے عُمر صحرا ہُوئی
ہم نے پانی کے دھوکے میں پھر ریت پر کشتیاں ڈال دیں
موسِم ہجر کی کیسی ساعت ہے یہ دل بھی حیران ہے
میرے کانوں میں کس نے تری یاد کی ہالیاں ڈال دیں
حالیہ تبصرے