نوشی گیلانی ۔ ہَوا کی ہم سخن ۔ سیّد نجم سبطین حسنی

ہوا چپکے سے کہتی ہےایک تبصرہ کیا گیا ہے »

Najam Sibtain Hasni

سیّد نجم سبطین حسنی
سڈنی۔ آسٹریلیا

نوشی گیلانی ۔ ہَوا کی ہم سخن

اسے ہماری تنگ نظری کہا جائے یا ایجاب و قبول کے رحجانات کی مجبوری کہ ۰۸۹۱ کی دہائی کے وسط تک فیض احمد فیض ،ناصر کاظمی، شکیب جلالی،احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، جَون ایلیا، عبیداللہ علیم ،رام ریاض، بسمل صابری ، اپروین شاکر اور محسن نقوی جیسے شعرائے غزل کا مسلسل اور والہانہ مطالعہ ہم سے یہ توفیق سلب کر چْکا تھا کہ ہم کسی اور کو بھی اپنی “ادبی شریعت “کا بے عیب شاعر قرار دے سکیں۔ بالخصوص سید محسن نقوی جیسے منفرد شاعر اور دانشور سے قریبی دوستی نے شعری مطالعہ اور معیارِ انتخاب کو مزید خود سَر بنا ڈالا تھا۔ ادب جوئی کے اسی عہدِ جنوں میں ہماری طرح بہت سے حلقے پروین شاکر کو جدید نسوانی لہجے اور اسلْوب کی پہلی اور آخری شاعرہ خیال کرتے تھے۔ نوجوان نسل کیلئے تو” خوشبو” جیسی مثالی کتاب کا حقیقی بدل خود پروین شاکر کی دوسری کتا بیں بھی نہ بن سکیں۔ یہ تمام خیالات مبنی بَر حقائق توتھے ہی ،مگر نئے شعراء4 کی آنے والی کتابوں کی بھیڑمیں اسی دوران ” محبّتیں جب شمار کرنا” کے ساتھ نوشی گیلانی کا نام منظرِ عام پر آیا تو ادبی حلقوں کے دروازے خود بخود اْس کی پذیرائی میں کھْلتے چلے گئے۔ سید محسن نقوی نے ایک گفتگو میں کہا کہ ” نوشی گیلانی ایسی منجھی ہوئی شاعری کر رہی ہے کہ اْسکے لہجے کی انفرادیت عہد آئندہ کی نمائندہ شاعرہ کہلانے کیتمام آثار سے لبریز ہے”۔
محسن نقوی کے جملے ہماری یادواشت کے بازو پر “امام ضامن “کی طرح رہا کرتے تھے۔۔ چنانچہ ہمارے حلقہ کے بہت سے افراد مکمل ادبی اعتقاد کے ساتھ نوشی گیلانی کی دستیاب کتابوں کے صفِ اوّل کے خرید ار وں میں شامل ہوتے گئے اور سفر و حضر میں ان کتابوں کا مطالعہ ہونے لگا۔۔ اْس عہد میں ہم نے سیکھا کہ کسی کتاب کے چَھپ کر چھْپ جانے کی بجائیاْس کتاب کا ہاتھوں کے ہجوم میں مصروفِ گردش رہنا شاعری کی دیر پا زندگی کا حقیقی ثبوت ہوتا ہے۔ جو کتاب اپنے ہی عہد میں سانسیں نہ لے سکے وہ اپنے شاعر کو کہاں تک زندگی فراہم کر سکتی ہے۔۔۔حقیقتاََ ہم نے محسوس کیا کہ “خوشبو” کو پڑہنے کے بعد نوجوان شاعری کے شہرِ جمالیات میں جو خلا ء4 اور سنّاٹا پھیل رہا تھا نوشی گیلانی کی شاعری نے تقلیدِ محض سے ھٹ کر اپنے امتیازی لب و لہجہ کے ذریعہ سے محسوسات کی اس کمی کو کافی حد تک دْور کر دیا تھا۔
روہی کی زرخیز کوکھ سے پھوٹنے والی غزلوں میں نوشی نے شہرِ محبت کی خواب پرست آنکھوں کو پتھرانے سیمحفوظ رکھنے کیلئے ان گنَت خوشنما منظروں کا رسد فراہم کیا۔ اْس کی شاعری کو پڑھتے ہوے انکشاف ہوتاہے کہ زْلفوں میں رکھی ہوئی شام، ہوا کی سرگوشی، چاندنی رات میں نہائی ہوئی ریت، پیاس کا دریا،ٹیلوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوے خواب، صرصر کی چاپ سے چونکی ہْوئی ہرنیوں کی چَوکڑیاں ، اداس موسم کی برف دھڑکنیں، بچھڑی ہوئی تمازتیں، پانیوں میں اترتے ہْوے سرمئی سائے ،آبلوں سے رَستی ہوئی وفا ، ۔۔۔ اور اِن جیسے کئی دل آویز خاکے،استعاریاور احساسات تجریدی مصوّری سے کہیں زیادشاعری کے ذریعہ دیکھے ، چھو ئے اور سمیٹے جا سکتے ہیں۔
اْس عہد سے ابتک ہم نوشی گیلانی کو محض اردوشاعری ، بہاولپور اور پاکستان کے حوالوں سے پہچانتے تھیمگر سال ۸۰۰۲کے بعد سے اپنے دوست سعید خان اور آسٹریلیا کے حوالوں سے بھی جاننے لگے ہیں۔۔ ازدواج کے بعد نوشی اور سعید کی شاعری کا سفینہ بھی تازہ رشتوں کے بحر الکاہل میں فکری مسافتوں کے ذریعہ کئی اَن دیکھے جزیرے دریافت کرنے میں مصروف ہے۔
نوشی کی اصل ذات اْس کی شاعری ہے اور فکری حسب و نسب کے منظر نامے میں نوشی گیلانی ایک ادب نوش، علم پوش اور تہذیب کوش شخصیت کا نام ہے۔ اْس کا کاغذ پر لکھا ہْوا شعر اْسی کے لہجے میں بولتا ہے کیونکہ وہ اپنے اشعار میں اپنا لہجہ اور لہجے میں سوزِ دروں گھولنے کا ہْنر اْسی طرح جانتی ہے جیسے خوشبو کا جھونکا اپنے گْلاب کی غیر مَرئی تصویر اپنے ہر موجہء4ِ نَفَس میں محفوظ رکھنے سے واقف ہوتاہے۔
نوشی کے یہاں صرف جذبات کی جلد باز ترجمانی کا نام شاعری نہیں ہے۔بلکہ وہ قدیم و جدید اردو ادب، عالمی ادب، تہذیبی ، تاریخی ، اور روحانی مکاتبِ فکر سے بھی متوازن استفادہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ” ہوا چْپکے سے کہتی ہے” اس کی بلوغتِ فکر اور بلاغتِ بیان دونوں کے وِجدان کا حاصل ہے۔ اس کے فلسفہء4ِ عشق پر صْوفیانہ دھوپ چھاوں کی گہری چھاپ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے مَن میں ہمیشہ سے اضطرابِ آگہی آباد رہا ہے۔اسی لئے اْس کے احتجاجات میں بھی فقر وبے نیازی کی شان موجود ہے
جاناں یہ عشق ہی نہیں آزار بھی تو ہے
دِل معترض نہیں کہ وفادار بھی تو ہے
اْس کے لہجے میں شکایت دیکھ کر
دل نے اْس کو بد گْماں رہنے دِیا
کبھی تمہاری طلب بے قرار رکھتی تھی
اور اب تو ذکر تمہارا عجیب لگتا ہے
اذیّت و کَرب کے مقابلے میِں صبر شجاعت کا مظہر ہوتا ہے۔ لیکن نوشی کے یہاں صبر کا ایک خوبصورت نام خود داری بھی ہے
اپنے دِل پر کڑی ضَرب پڑتی رہی
اور لب التجاوں سے خالی رہے
عشق نارسائی کو باریابی اور غیوب کو حضوری میں بدلنے والی قوّت کا نام ہے۔ اسی لئے نوشی کہتی ہے
کسی کے عشق کا بے نام جْگنو
مری مْٹھی میں کیسے آگیا ہے؟
یہ کیسی خواہشِ بے تاب جاگی؟
کہ دِل اْس کی گلی تک آگیا ہے
عشق کا سفر سمتِ راست میں رہے توعرفانِ حقائق کا وسیلہ بن جاتاہے اور شعورِ کوحصارِ ذات کے دھوکوں سے باہر نکال کے لے جاتا ہے ۔نوشی یہ فلسفہ کتنے لطیف مگر ذو معنی آہنگ میں بیان کر رہی ہے
ذات کے غم سے رہائی دے گا
عشق اِک اور جْدائی دے گا
آگہی وہ کیفیّت ہے جو با خبری کے سبب فنائے کا ئنات کا پردہ چاک کر تی ہے اسلئے اس کا ردّ عمل نیاز مندی اور کبھی کبھی نا یافت کی منزل تک لے جاتا ہے۔جبکہ جنون دنیا و ما فیہا سے بے خبر ی کا حجاب اوڑہنے کے سبب بے نیازی سے سر شار ہوتا ہے اور بے نیازی کا پھیلاو ء4 اپنے اندر خْدا ئی کرنے کی جھلک رکھتا ہے۔۔ اس مشکل موضوع کو چھیڑتے ہوے نوشی گیلانی نے کہا ہے کہ
جِس نے احساسِ جنوں چھین لیا
وہ بھلا کیسے” خْدائی ” دے گا؟
نوشی گیلانی کی نظموں کے گنبد میں “مینوں لگ گئی بے اختیاری ” لکھ وار اساڈی بس سائیں اور “می رقصم”جیسے عنوانات کی گونج بھی اْس کے سرا ئیکی اور صوفیانہ فکری اثاثوں سے مربوط ہے۔
توقیرِ نف?س کا اِدراک نوشی کو سیرابی سے بڑھ کر تشنہ دہانی میں آسودہ رکھتا ہے ۔ وہ ” اَنا دار”ہے اسلئے ” نادارِ انا” طرزِ طلب کو اپنے اوپر حرام رکھتی ہے۔
عذابِ تشنگی نے جسم و جاں کو ریت کر ڈالا
لبِ دریا کھڑے ہیں اور پانی سے گریزاں ہیں
پیاس کی شدّت ہو نٹوں کی تقدیر ہْوئی
لیکن قطرہ ء4ِ آب سے بھا گتے پھرتے ہیں
اس کے اشعار میں موزوں لفظوں کا تعیّن اْس کی رحلِ جان میں رکھی ہوئی لغاتِ احساس کے سپرد ہے۔اسی لئے اْسکی غزلوں میں سادگی،بے ساختہ پن اور عدم آوْرد کا عنصر غالب رہتا ہے
مہکتی ہے مرے دل کی حویلی
کوئی دیوار و در سیبولتا ہے
جو تیرے نام پر لکھی گئی تھی
وہ ساری شاعری اچھی لگی ہے
ابھی کیوں برف گرتی ہے بدن پر؟
ابھی تو ہات پر رنگِ حِنا ہے
بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ سوچ کر شعر نہیں لکھتی بلکہ سوچتی ہی شعروں میں ہے۔۔ اْس کے روز مرّہ محسوسات ہی اس کی شاعری ہیں اس لئے اْسے شاعرہ بنانے میں کسی ہوسِ تحسین کا آسیب کار فرما نہیں ہے بہتے ہْوے دریا کا مزاج رکھنے والی اْس کی بیسیوں تخلیقات میں سے ایک نظم دیکھئے
چل مرے دِل چلیں
چل مرے دل چلیں
شام کے راگ پر
رقصِ سادہ کریں
خوشبووں سے سخن کا اِرادہ کریں
کوئی وعدہ کریں
نشّہء4ِ عشق میں رْوح کو بھیِ کہیں
بے لبادہ کریں
چَل مِرے دِل چلیں
سرحدِ ذات پر اْترنے والے معجزاتِ قْرب نوشی گیلانی کا حسّاس ترین موضوع ہیں۔ قربت کی کیفیات کے ذریعے وجودِ انسان کے باطن کی دریافت از خود ایک مراقبے اور کشف کا مقام رکھتی ہے اسی لئے وہ کہتی ہے
کِسے پتہ تھا مرے کوْزہ گر ترے ہاتھوں
مرا وجود نئے زاویوں میں ڈھلنا ہے
جس طرح رگڑ کھائے بغیر تلوار صَیقل نہیں ہوتی آگ سہے بغیر سونا کْندن نہیں ہوتا اسی طرح سختی اور آزمائش سے گْزرے بغیر انسان کی خْفتہ خوبیاں بھی بیدار نہیں ہو پاتیں محسن نقوی نے اس ذوق کی لیمیں کیا خوبصورت شعر کہا تھا
مرے صبر پر ہے یہ اجر کیوں مری دوپہر پہ یہ ابر کیوں؟
مْجھے جھیلنے دے اذیّتیں مری عادتیں نہ خراب کر
صنفِ لطیف ہونے کے باوجودنوشی کی فنی ریاضت کے اسالیب اور تہمت تراش عہدِ حریف کے مقابل اْس کی پیہم ثابت قدمی کے مظاہرے اس کی مشکل پسندی اور گرہ کْشائی کے بہترین حوالے ہیں۔ اسی لئے اس نے کہا ہے کہ
لوگ دیوار کا سایہ ڈھونڈیں
اور ہم شدّتِ صحرا ڈھونڈیں
” ہوا چْپکے سے کہتی ہے ” کے تمام اشعار فکری اور فنی محاسن سے مزیّن ہیں۔ نوشی اپنی غزلوں اور نظموں میں تراکیب ، بحور ، تماثیل ،تشبیہات، استعارے اورکنایے اس نفاست سے استعمال کرتی ہے کہ اشعار کی سادگی بھی مجروح نہیں ہوتی اور فنی صنا ئع و بدائع بھی بدرجہ اتم کلام کے حْسن کو دوبالا کرتے رہتے ہیں۔ اس کیخیالات میں جمود نہیں ہے۔اس کی تراکیب میں ندی جیسا بہاو اور بحور میں سْر وں جیسا رچاو موجودہے۔
نوشی گیلانی اپنے عہد کی وہ شاعرہ ہے جس نے مہذب داِئروں کو برقرار رکھتے ہوے جدّت اور بے باک گوءءِ کے جملہ تقاضوں کو بطورِ احسن نبھایا ہے۔ اس کے موضوعات میں کوئی اخلاقی گراوٹ یا اقدار سوزی نہیں ملتی۔ اس کی شاعری مجموعی طور پر نسلِ نو کو پیغام دیتی ہے کہ دل کی آواز دبانا کردار کی خود کشی ہوتی ہے مگر اِیک سلجھی ہوئی حسّاس لڑکی اپنی اخلاقی ذمہ داریاں پہچانتی ہو تواپنے ہر احساس اور تجربے کو کردار ساز حدوں میں رہتے ہوے بھی بیان کر سکتی ہے۔ قدیم تعریف کے مطابق غزل کا مفہوم تھا ” عورتوں سے باتیں کرنا” اور مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ اس تعریف کی زد میں رہ کر خود شاعرات بھی اپنی غزل میں عورتوں ہی سے باتیں کرتی تھیں۔ حالانکہ مردوں کے لہجے کی تقلیدی شاعری عورت کے اپنے تشخّص کی تردید ہے۔ اردو کی وہ گنی چْنی شاعرات جنہوں نے اپنی شاعری کو فنی اجتہاد کرتے ہوے عورت کا سچا لہجہ عطا کیا ،جنکی شاعری نوجوان قارئینِ ادب میں مقبولِ عام ہوئی اور محبت کے تحائف میں تقسیم کی گئی اْنمیں نوشی گیلانی کا نام سرِ فہرست شمار ہوتا ہے۔ نوشی شعر کہتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ محض عورتوں سے بات نہیں ہو رہی بلکہ اب ایک عورت دنیا سے بات کر رہی ہے۔۔۔۔اس کامخاطب پورا سماج ہوتا ہے۔ وہ کبھی ہوا سے ہمکلام ہوتی ہے کبھی موسموں سے کبھی بارش سے اور کبھی خوشبووں سے۔۔۔ نوشی نے لمحہ لمحہ اپنی شعری کائنا ت کو محبّتیں سونپ کر جدید ادب کے گرد ایک ایسا ماحول تخلیق کر لیا ہے جہاں کبھی کبھی سخنور کے حصے کی باتیں بھی نطقِ ہَوا کے سپرد ہو جاتی ہیں۔۔ اور ایسے میں سماعت پر یہ شعر منکشف ہوتا ہے
“ہمارے درمیاں عہدِ شبِ مہتاب زِندہ ہے
ہَوا چْپکے سے کہتی ہے ابھی اِک خواب زِندہ ہے”
***

تازہ کتاب سے – سمندر کا سفر ھے رتجگا ھے

تازہ ترین, ہوا چپکے سے کہتی ہے7 تبصرے »

سمندر کا سفر ھے رتجگا ھے

دِیا اک پانیوں پر جل رھا ھے

افق پر دُور اک نیلا ستارہ

مرے ھمراہ شب بھر جاگتا ھے

اڑانوں سے تھکا ہارا پرندہ

سنہرے پانیوں پہ آ گِرا ھے

مرے دِل کی ھتھیلی پر کسی کا

کویٔ پیغام لکھا رہ گیا ھے

عجب ھے ھجر موسم کی کہانی

بدن کا رنگ پھیکا پڑ گیا ھے

ھوا نے آج کیسی بات کہہ دی

گلوں کا حوصلہ بکھرا ھوا ھے

ہوا چپکے سے کہتی ہے

ہوا چپکے سے کہتی ہےابھی تک کوئی تبصرہ نہیں ہوا »